ایک شہنشاہ جب دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے نکلا تو اس کا گزر افریقہ کی ایک ایسی بستی سے ہوا جو دنیا کے ہنگاموں سے دور اور بڑی پرسکون تھی۔ یہاں کے باشندوں نے جنگ کا نام تک نہ سنا تھا اور وہ فاتح اور مفتوح کے نام سے نا آشنا تھے بستی کے باشندے شہنشاہ اعظم کو مہمان کی طرح ساتھ لے کر اپنے سردار کی جھونپڑی میں پہنچے۔ سردار نے اس کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا اور پھلوں سے شہنشاہ کی تواضع کی، کچھ دیر میں دو قبائلی اپنا مقدمہ لے کر سردار کی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئے، سردار کی یہ جھونپڑی عدالت کا کام بھی دیتی تھی پہلے نے کہا کہ میں نے اس آدمی سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا تھا‘ ہل چلانے کے دوران اس میں سے خزانہ برآمد ہوا میں نے یہ خزانہ اس آدمی کو دینا چاہا مگر یہ نہیں لیتا میں یہ کہتا ہوں کہ یہ خزانہ میرا نہیں ہے کیونکہ میں نےاس سے زمین خریدی تھی اور اسے صرف زمین کی قیمت ادا کی تھی‘ خزانے کی نہیں۔ دوسرے نے جواب میں کہا: میرا ضمیر ابھی زندہ ہے‘ میں یہ خزانہ اس سے کس طرح لے سکتا ہوں‘ میں نے تو اس کے ہاتھ زمین فروخت کی تھی اب اس میں سے جو کچھ بھی برآمد ہو یہ اس کی قسمت ہے اور یہی اس کا مالک ہے۔ میرا اب اس زمین اور اس میں موجود اشیاء سےکوئی تعلق نہیں۔ سردار نے غور کرنے کرنے کے بعد زمین خریدنے والے سے کہا تمہارا کوئی لڑکا ہے‘ ’’ہاں ہے‘‘ پھر زمین بیچنے والے سے پوچھا اور تمہاری کوئی لڑکی ہے اس نے بھی اثبات میں گردن ہلادی تو تم ان دونوں کی شادی کرکےیہ خزانہ ان کے حوالے کردو‘ اس فیصلے نے شہنشاہ کو حیران کردیا وہ فکرمند ہوکر کچھ سوچنے لگا۔ سردار نے شہنشاہ کی پریشانی دیکھتے ہوئے اس سے دریافت کیا۔ کیوں میرے فیصلے سے آپ مطمئن نہیں ہیں؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے شہنشاہ نے جواب دیا۔ لیکن تمہارا فیصلہ میرے نزدیک حیران کن ضرور ہے۔ سردار نےسوال کیا: کہ اگر یہ مقدمہ آپ کے روبرو پیش ہوتا تو آپ کیا فیصلہ سناتے۔ شہنشاہ نے کہا پہلی تو بات یہ ہے کہ ا گر یہ مقدمہ ہمارے ملک میں ہوتا تو زمین خریدنےوالے اور بیچنے والے کے درمیان کچھ اس طرح کا جھگڑا ہوتا کہ بیچنے والا کہتا کہ میں نے اسے زمین فروخت کردی ہے اور اس سے زمین کی قیمت وصول کی ہے اب جبکہ خزانہ نکل آیا ہے تو اس کی قیمت میں نے وصول ہی نہیں کی۔ اس لیے یہ میرا ہے۔ خریدنے والا کہتا کہ میں نے اس سے زمین خرید لی ہے تو اب اس میں جو کچھ ہے وہ میری ملکیت ہے اور میری قسمت ہے۔ سردار نے شہنشاہ سے پوچھا۔ پھر تم کیا فیصلہ سناتے‘ شہنشاہ نے اس کے ذہن میں موجود سوچ کے مطابق فوراً جواب دیا۔ ہم فریقین کو حراست میں لے لیتے اور خزانہ حکومت کی ملکیت قرار دے کر شاہی خزانے میں داخل کردیا جاتا۔ ’’بادشاہ کی ملکیت‘‘ سردار نے حیرت سے پوچھا کیا آپ کے ملک میں سورج دکھائی دیتا ہے۔ جی ہاں! کیوں نہیں؟۔ وہاں بارش بھی ہوتی ہے؟ بالکل!۔ بہت خوب سردار حیران تھا لیکن ایک بات اور بتائیں کیا آپ کے ہاں جانور بھی پائےجاتےہیں جو گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ ہاں ایسے بے شمار جانور پائے ہیں ہمارےہاں!۔ اوہ خوب! میں اب سمجھا‘ سردار نے یوں گردن ہلائی جیسے کوئی مشکل ترین بات اس کی سمجھ میں آگئی ہو اور بولا: تو اس ناانصافی کی سرزمین پر شاید ان ہی جانوروں کے طفیل سورج روشنی دے رہا ہے اور بارش کھیتوں کو سیراب کررہی ہے۔ (محمد صفی اللہ ہمدانی‘ اٹک)
دُم چَھلّا
بہت سال پہلے ایک گاؤں میں ایک غریب آدمی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ چرخہ پر روئی سے دھاگہ بناتا تھا۔ وہ بادشاہ کے محل بھی جاتا رہتا تھا۔ ایک دن اُس نے بادشاہ کو خوش کرنے کیلئے کہا: ’’بادشاہ سلامت! میری بیٹی بہت قابل ہے‘ وہ بھوسے کو چرخہ پر چلا کر سُونے کا دھاگہ بناسکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے اس کی بات پر یقین کرتے ہوئے کہا: ’’اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم اس کو محل میں لےآؤ‘ اگر واقعی اس نے بھوسے کو سونا بنادیا تو میں اس سے شادی کرلوں گا ورنہ اس کو مار دیا جائے گا۔اگلے دن باپ بیٹی محل آگئے‘ بادشاہ نے اس لڑکی کو ایک چرخہ اور ایک بنڈل بھوسہ دیا اور کہا:’’لڑکی! رات بھر اس بھوسے سے سونا بنادو‘ اگر تم نہیں بناسکیں تو تم کو مرنا ہوگا۔ لڑکی جانتی تھی کہ یہ ناممکن کام ہے۔ وہ بیٹھی رو رہی تھی کہ اس کو ایک آواز سنائی دی‘ کیوں روتی ہے؟ لڑکی نے دیکھا تو ایک چھوٹا سا بونا اس سے پوچھ رہا تھا‘ جب لڑکی نے اپنامسئلہ بتایا تو وہ بولا: ’’یہ بھی کوئی مشکل کام ہے‘ تم مجھے اپنی انگوٹھی اگر دو تو میں تمہارا یہ کام کردوں گا‘ اس لڑکی نے اپنی سونے کی انگوٹھی بونے کو دے دی۔ تھوڑی ہی دیر میں بونے نے سارے بھوسے کو سونے کے دھاگے میں تبدیل کردیا اور خود غائب ہوگیا۔ بادشاہ نے صبح جب دیکھا تو بھوسے کے بجائے سونے کا دھاگہ پڑا ہے تو وہ بہت خوش ہوا مگر اس نے کہا کہ آج رات مزید بھوسے کو سونے میں تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ہمیں یقین ہوجائے کہ یہ کوئی جادو تو نہیں۔ لڑکی پھر رونے لگی‘ بونا پھر آگیا اور لڑکی سے مخاطب ہوکر بولا: آج اگر تم مجھے قیمت دو تو میں یہ کام کردوں‘ لڑکی نے اپنا سونے کا ہار گلے سے اتار کر بونے کو دے دیا بونے نے پھر بھوسے کو سونا بنادیا اور صبح ہونے سے پہلے غائب ہوگیا۔ بادشاہ نے صبح پھر بھوسے کے بجائے سونے کے دھاگے کے گولے دیکھے تیسرے دن بادشاہ نے لڑکی کو بہت بڑے کمرے میں بہت سے بھوسے کے ساتھ بند کردیا یہ کہہ کر کہ ’’یہ آخری امتحان ہےتمہارا‘ صبح اگر بھوسے کے بجائے سونا ہوا تو میں تم سے ضرور شادی کرلوں گا‘
لڑکی پریشان تھی کیونکہ اس دفعہ اس کے پاس بونے کو دینے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ بونے نے لڑکی سے کہا: میں آج بھی تمہارا کام کردیتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ شادی کے بعد اپنا پہلا بچہ مجھے دے دو‘ لڑکی نے دل میں سوچا کہ وہ اپنا بچہ ہرگز نہیںدے گی مگر پریشانی میں اس نے بونے سے وعدہ کرلیا۔ اگلے دن بادشاہ نے اپنے وعدے کے مطابق اس لڑکی سے شادی کرلی۔ ایک سال بعد ایک بہت پیاری سی بچی پیدا ہوئی تو وہ لڑکی بہت خوش ہوئی۔ دن بہت اچھے گزر رہے تھے۔ بادشاہ بھی بہت خوش تھا۔ ایک دن کمرے میں اچانک وہ بونا آگیا اور لڑکی سے بولا: وعدے کے مطابق لاؤ یہ بچی مجھے دے دو‘ یہ سن کر وہ لڑکی اب ملکہ تھی بہت رونے لگی۔ وہ اتنا روئی اتنا روئی کہ بونے کو اس پر ترس آگیا۔ بونے نے کہا: اے ملکہ! اگر تم میرا نام بتادو تو میں یہ بچی نہیں لے جاؤں گا۔ اس وقت میں جارہا ہوں۔ ایک ہفتے کے بعد پھر آؤں گا۔ اگر تم نے میرا نام بتادیا تو یہ بچی تمہاری رہے گی ورنہ میں لے جاؤں گا۔‘ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگیا۔ ملکہ نے بہت نام سوچے مگرکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ آخر اس نے پورے ملک میں اعلان کروا دیا کہ جو سب سے مختلف اور عجیب نام بتائے گا اس کو انعام دیا جائے گا۔ تین دن بعد ایک سپاہی ملکہ کے پاس آیا اور بولا کہ میں جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا عجیب شکل اور حلیے کا بونا آگ کے گرد ناچ رہا تھا اور کہہ رہا تھا’ملکہ کو میرا نام پتہ چل ہی نہیں سکتا کیونکہ آج تک میرا نام کسی کو پتہ نہیں‘ میرا نام ہے چھلا دم چھلا ہا ہا!!! ملکہ نے سپاہی کو انعام دے کر رخصت کیا۔ وعدے کے مطابق بونا آگیا اور ملکہ سے اپنا نام پوچھا تو ملکہ نے مذاقاً کہا: تمہارا نام اٹکن بٹکن ہے نا؟ بونے نے کہا: نہیں! ملکہ نے پھر کہا: اچھا! تمہارا نام اگڑم تگڑم ہے؟ بونے پھر کہا: نہیں نہیں۔ تم میرا نام نہیں جانتی لاؤ یہ بچی مجھے دےدو۔ پھر ملکہ نے آخر میں کہا: تمہارا نام چھلا دم چھلا ہے ناں؟ بونا بہت حیران ہوا اور غصہ سے اتنی زور سے زمین پر پاؤں مارا کہ خود ہی گر پڑا اورپھر اچانک ہی ہمیشہ کیلئے غائب ہوگیا۔ بادشاہ، ملکہ اور ان کی بیٹی شہزادی مزے سے رہنے لگے۔ (انتخاب:سانول چغتائی‘ رانجھو چغتائی‘ اماں زیبو چغتائی‘ بُھورل چغتائی‘ احمد پور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں